Sunday, April 13, 2025

ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے کی وعید قران و حدیث سے

 

وعن ابن عمر رضی اللہ عنھماقال رسول اللہ ﷺ لا ینظر اللہ الی من جر ثوبہ خیلاء (متفق علیہ)
ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
اللہ تعالی اس شخص کی طرف نہیں دیکھیں گےجس نے اپنا کپڑا تکبر کے ساتھ کھینچا ( اتفق علیہ)

دیکھے گا نہیں کا مطلب یہ ہے کہ رحمت اور محبت کی نظر سے نہیں دیکھے گا۔۔۔کیونکہ اللہ کی نظر سے کوئی چیز غائب نہیں ہو سکتی۔۔۔وجہ یہ ہے کہ متواضع و مسکین مہربانی کی نظر کا حق دار ہوتا ہے اور متکبر و مغرور قہر کی نظر کا مستحق ٹھہرتا ہے

فرمانِ الہی ہے
ان اللہ لا یحب من کان مختالا فخورا
یقینا اللہ تعالی تکبر کرنے والے شیخی خور کو پسند نہیں کرتے

ابوذرغفاری سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا
ثلاثة لا یکلھم اللہ یوم القيامة ولا یزکیھم ولھم عذاب الیم ۔۔۔المسبل والمنان والمنفق سلعتہ بالحلف الکاذب (مسلم)
تین آدمی ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ کلام کرے گا نہ انھیں پاک کرے گا اور ان کے لیے عذاب الیم ہے( کپڑا ) لٹکانے والا‘ احسان جتلانے والا اور جھوٹی قسم کے ساتھ اپنا سامان بیچنے والاا

زیر نظر حدیث میں من جر ثوبہکے الفاظ ہیں ان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آپﷺ نے صرف چادر لٹکانے سے منع نہیں کیا بلکہ قمیص شلواریا کوئی بھی کپڑا جو لٹکایا جائے اس سے منع فرمایا ہے
کپڑا لٹکانے پر یہ وعید عمومی ہے ۔۔۔۔مرد عورتیں دونوں اس میں داخل ہیں
ام سلمہ نے اس حدیث سے یہی بات سمجھی چنانچہ ترمذی اور نسائی میں ابن عمر کی اس روایت میں ساتھ ہی یہ الفاظ ہیں

مَن جرَّ ثوبَه مِن الخُيَلاءِ لم يَنْظُرِ اللهُ إليه ، قالت أمُّ سَلَمَةَ : يا رسولَ اللهِ ، فكيف تَصْنَعُ النساءُ بذيولهن ؟ قال : تُرْخينَه شِبْرًا . قالت: إذا تَنْكَشِفُ أقدامُهنَّ. قال : تُرْخِينَه ذِراعًا لا تزِدْنَ عليه.
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث: الألباني - المصدر: صحيح النسائي - الصفحة أو الرقم: 5351
خلاصة حكم المحدث: صحيح

ام سلمہ نے کہا کہ عورتیں اپنے دامن کا کیا کریں ۔۔۔آپﷺ نے فرمایا ایک بالشت لٹکا لیا کریں ۔۔انھوں نے عےض کیا کہ اس صورت میں ان کے پاؤں کھل جائیں گے آپﷺ نے فرمایا تو ایک ہاتھ لٹکا لیں اس سے زیادہ نہ لٹکائیں

اس سے معلوم ہوا کہ جو عورتیں کئی گز لمبا کپڑا اپنے پیچھے کھینچتے ہوئے چلتی ہیں خصوصا شادی کے موقع پر وہ بھی اس وعید میں شامل ہیں۔۔۔یورپی اقوام میں اوران کی دیکھا دیکھی مسلمان عورتوں میں بھی یہ رسم بد چل پڑی ہے کہ شدی کی تقریبات میں کئی گز لمبے غرارےپہنتی ہیں کبھی ٹیل سٹائل کی صورت میں اور کبھی فش سٹائل کی طرز  پر اور کبھی کبھار دوپٹہ فرش پر جھاڑو دے رہا ہوتا ہے۔۔۔اور بعض اوقات اسے کئی عورتوں نے اٹھا رکھا ہوتا ہے جو ساتھ ساتھ چلتی جاتی ہیں۔۔۔۔نمود و نمائش اور کبر و نخوت کی ماری ہوئی یہ عورتیں اللہ کی نگاہ رحمت سے محروم ہیں
عورت مردوں کی طرح اپنے ٹخنے ننگے نہ رکھے بلکہ پاؤں کو چھپائے مگر ایک ہاتھ (بالشت) سے زیادہ کپڑا نہ لٹکائے ۔۔۔بہتر یہ ہے کہ ایک بالشت ہی لٹکائے

جس نے اپنا کپڑا تکبر کے ساتھ کھینچاسے معلوم ہوا کہ تکبر کے بغیر کسی کا کپڑا نیچے چلا جائے تو وہ اس وعید میں داخل نہیں ہے۔۔۔چنانچہ صحیح بخاری میں عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ آپﷺ کا یہ فرمان سن کر حضرت ابو بکر نے کہا۔۔۔یا رسول اللہ ٰ! میری چادر کا ایک کنارہ لٹک جاتا ہے سوائے اس کے کہ میں اس کا خیال رکھوں تو آپﷺ نے فرمایا
انک لست ممن یصنعہ خیلاءا
تم ان لوگوں میں سے نہیں ہو جو یہ کام تکبر سے کرتے ہیں

حضرت عائشہ کی ایک روایت ہے 
کان ابو بکر احنی لا یستمسک ازارہ یسترخی عن حقویہ
ابو بکر کا قد جھکا ہوا تھا ۔۔۔اپنی چادر تھام نہیں سکتے تھے۔۔وہ ان کے کولہوں سے ڈھلک جاتی

اب صاف ظاہر ہے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ جان بوجھ کر چادر نیچے نہیں لٹکاتے تھے۔۔۔کبھی کبھی بے توجہی ہو جاتی تو نیچے ڈھلک جاتی ۔۔۔اس طرح اگر کسی کی چادر ڈھلک جاے تو نہ یہ تکبر ہے اور نہ اس پر مواخذہ ہے

اگر کوئی شخص جان بوجھ کر کپڑا لٹکائے اور کہے میں نے تکبر سے نہیں لٹکایاتو اس کی بات درست نہیں ۔۔۔کیونکہ رسول اللہ ﷺ نےمومن کی چادر کا مقام پنڈلی کا عضلہ مقرر فرمایا ہے۔۔۔۔زیادہ سے زیادہ ٹخنے کے اوپر تک رکھنے کی اجازت دی اور اس سے نیچے لٹکانا منع فرمایا
بطور دلیل چند احادیث پیشِ خدمت ہیں

إِزرةُ المسلمِ إلى نصفِ السَّاقِ ولا حرَجَ ولا جُناحَ فيما بينَهُ وبينَ الكَعبينِ ، ما كانَ أسفلَ من الكعبينِ فَهوَ في النَّارِ، مَن جرَّ إزارَهُ بطرًا لم ينظرِ اللَّهُ إليهِ
الراوي: أبو سعيد الخدري المحدث: ابن مفلح - المصدر: الآداب الشرعية - الصفحة أو الرقم: 3/521
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح

أخذ رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم بعَضَلَةِ ساقِي - أو ساقِهِ - فقال : هذا مَوْضِعُ الإزارِ، فإن أبيتَ فأسفلُ، فإن أبيتَ فلا حَقَّ للإزارِ في الكعبينِ
الراوي: حذيفة بن اليمان المحدث: الترمذي - المصدر: سنن الترمذي - الصفحة أو الرقم:1783
خلاصة حكم المحدث: حسن صحيح

جان بوجھ کرچادر لٹکانا تکبر میں داخل ہے ۔۔۔خواہ ایسا کرنے والا کہے کہ میں نے اسے تکبر سے نہیں لٹکایا
جابر بن سلیم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے کئی اور باتوں کے علاوہ فرمایا

وارفع ازارک الی نصف الساق فان ابیت فالی الکعبین وایاک واسبال الازار فانھا من المخیلۃ وان اللہ لا یحب المخیلۃ (ابو داؤد)
اور اپنے چادر نصف پنڈلی تک اونچی رکھو اگر نہیں مانتے تو ٹخنوں تک اور چادر لٹکانے سے بچو کہ یہ تکبر سے ہے اور اللہ تعالی تکبر کو یقینا پسند نہیں فرماتا

اگر کوئی شخص اپنی پنڈلیاں ٹیڑھی یا باریک ہونے کی وجہ سے چادر لٹکائےتو یہ بھی ناجائز ہے 

أبصر رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ رجلًا يجرُّ إزارَهُ، فأسرع [إليه] أو هرول، فقال: ارْفَعْ إِزَارَكَ، وَاتَّقِ اللهَ، قال: إني أحنفُ تَصطَكُّ ركبتايَ، قال ارْفَعْ إِزَارَكَ، فَإِنَّ كُلَّ خّلْقِ اللهِ حَسَنٌ.فما رُؤِيَ [ذلك] الرجلُ بعدُ إلا إزارَه يصيبُ أنصافَ ساقيْهِ، أو إلى أنصافِ ساقيهِ.
الراوي: الشريد بن سويد الثقفي المحدث: ابن كثير - المصدر: جامع المسانيد والسنن -الصفحة أو الرقم: 5198
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح

رسول اللہﷺ نے ایک آدمی کودیکھاجو اپنی چادر کھینچتا ہوا جا رہا تھاآپﷺ اس کی طرف جلدی سے گئے یا دوڑ کر گئےاور فرمایا
اپنی چادر اوپر اٹھاؤ اور اللہ سے ڈرو
اس نے کہا میرے پاؤں ٹیڑھے ہیں میرے گھٹنے آپس میں رگڑ کھاتے ہیں 
آپﷺ نے فرمایا
اپنی چادر اوپر اٹھاؤ کیونکہ اللہ کی پیدا کی ہوئی ہر چیز ہی خوبصورت ہے
تو اس کے بعد اس آدمی کو جب بھی دیکھا گیا اس کی چادر نصف پنڈلی پر ہوتی تھی

اس حدیث سے اس معاملے کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔۔ایک جائز عذر کی موجودگی کے باوجود آپﷺ نے اسے ناپسند فرمایا تو جو حضرات بغیر کسی مجبوری اور معذوری کے چادر لٹکاتے ہیں انھیں اس حدیث پر غور کرنا چاہیے

جو شخص جان بوجھ کر چادر یا شلوار ضرورت سے بڑی سلواتا ہےاور اسے ٹخنے سے نیچے رکھتا ہے تکبر کے علاوہ اس کے ناجائز ہونے کی چند اور وجہیں ہیں

پہلی وجہ

اسراف اور فضول خرچی ہے جو کہ حرام ہے کیونکہ اللہ تعالی نے اس سے منع فرمایا ہے
ولا تسرفوا ان اللہ لا یحب المسرفین
اور فضول خرچی نہ کرو اللہ تعالی فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا

دوسری وجہ

عورتوں سے مشابہت ہے جو اس میں اسراف سے بھی زیادہ نمایاں ہے ابو ہریرۃ سے روایت ہے
ان رسول اللہ ﷺ لعن المراۃ تلبس لبسۃ الرجل والرجل یلبس لبسۃ المراۃ
رسول اللہ ﷺ نے اس عورت پر لعنت فرمائی جو مرد کی طرح کا لباس پہنے اور اس مرد پر لعنت فرمائی جو عورت کا لباس پہنے
یہ بات واضح ہے کہ عورت اگر اپنے ٹخنے ننگے رکھے تو یہ مرد سے مشابہت ہے اور مرد اپنے ٹخنے ڈھانک کر رکھے تو یہ عورت سے مشابہت ہے

تیسری وجہ

چادر لٹکانے والے کی چادر کے ساتھ کوئی نہ کوئی نجاست لگنے کا اندیشہ رہتا ہے جبکہ اللہ تعالی نے حکم دیا ہے
وثیابک فطھر
اپنےکپڑے پاک رکھ
صحیح بخاری میں عمر بن خطاب کی شہادت کا مفصل واقعہ مذکور ہےعمرو بن میمون بیان کرتے ہیں
جب امیر المومنین کو پیٹ میں خنجرمارا گیا تو انھیں اٹھا کر گھر لایا گیا ہم بھی ساتھ گئے نبیذ لائی گئی انھوں نے پی لی تو پیٹ سے نکل گئی پھر دودھ لاسیا گیا آپ نے پیا تو وہ بھی زخم سے نکل گیا ۔۔۔۔لوگوں کو یقین ہو گیا کہ آپ شہید ہو جائیں گے اب ہم ان کے پاس داخل ہوئے اور لوگ بھی آنے لگے اور ان کی تعریف کرنے لگے ایک نوجوان آیا اس نے کہا امیر المومنین !اللہ کی طرف سے خوش خبری پر خوش ہو جائیے۔۔۔۔۔۔۔جب وہ جانے لگا تو اس کی چادر زمین پر لگ رہی تھی فرمایا اس نوجوانکو میرے پاس واپس لاؤ پھر فرمایا
یا ابن اخی ارفع ثوبک فانہ انقی لثوبک واتقی لربک
بھتیجے اپنا کپڑا اوپر اٹھا لو کیونکہ یہ تمہارے کپڑے کو صاف رکھنے کا باعث ہے اور تمہارے پروردگار سے زیادہ ڈرنے کا باعث ہے
یہاں ان لوگوں کو غور کرنا چاہیے جو ٹخنوں سے کپڑا لٹکانے کو معمولی خیال کرتے ہیں کہ امیر المومنین نے اتنی تکلیف میں بھی کپڑا لٹکانے سے منع فرمانے کو ضروری سمجھا ۔




Sunday, February 9, 2025

🏆کیا انسان اشرف مخلوقات ہے

اس جہانِ رنگ و بو میں کروڑوں نہیں اربوں انسان زندگی بسر کر رہے ہیں۔ مسلم بھی اور غیر مسلم بھی، نیک بھی اور بَد بھی، ظالم بھی آباد ہیں اور مظلوم بھی، جاہل افراد بھی موجود ہیں اور دانش مند بھی۔ مگر اس دَور میں نیکی کی بجائے بدی کا، عدل و انصاف کی بجائے ظلم و تشدّد کا اور امن و آشتی کی بجائے جہالت و بربریت کا غلبہ ہے۔ ہر طرف تاریکی چھائی ہوئی ہے۔ قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے۔ بے حیائی اور فحاشی نقطۂ عروج تک پہنچی ہوئی ہے۔ اقدار مٹ رہی ہیں، عزتیں لٹ رہی ہیں اور عصمتیں داغدار ہو رہی ہیں۔ خصوصاً مسلمان قوم آج ذِلت و رسوائی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتی چلی جا رہی ہے۔ دیگر اقوام اسے تر نوالہ سمجھ کر ہڑپ کرنے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔ انسانیت خوابیدہ ہے، اسے بیدار کرنے کی ضرورت ہے، دل مردہ ہو چکے ہیں، ان میں زندگی کی لہر دوڑانا ناگزیر ہے، دل بے شمار بیماریوں کا شکار ہیں، ان کا علاج از بس ضروری ہے۔

دل کو جسم انسانی میں ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے جو کیفیت دل کی ہوتی ہے اعمال اسی کی ترجمانی کرتے ہیں۔ دل میں فساد و بربریت ہو تو اعمال سے یقیناً درندگی ٹپکے گی اور اس کے برعکس اگر دل میں امن و آشتی کے جذبات ہوں تو اعمال سے محبت و الفت کے زمزمے پھوٹیں گے۔ اسی لئے تو آنحضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:

«اَلَا فِي الْجَسَدِ مُضْغَةٌ اِذَا صَلُحَتْ صَلُحَ الْجَسَدُ كُلُّه وَاِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّه اَلَا وَھِيَ الْقَلْبُ »

کہ جسم انسانی میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ درست ہوتا ہے تو جسم کے تمام اعضاء درست کام کرتے ہیں۔ جب اس میں خرابی پیدا ہوتی ہے تو تمام جسم میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔

خبردار! وہ گوشت کا ٹکڑا انسانی دل ہے۔

تعمیرِ انسانیت کے لئے سب سے پہلی اور بنیادی شرط یہ ہے کہ دل میں زندگی پیدا کی جائے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زندہ دلی سے مراد کیا ہے؟ کیا اس دل کو زندہ نہیں کہا جائے گا جو معمول کے مطابق حرکت کرتا ہو اور جو دوسرے اعضاء کو باقاعدگی سے خون پہنچاتا ہو؟ زندہ دلی اسی کا نام ہے تو پھر اس کائنات میں کس کا دل مردہ ہے؟

اس سوال کا جواب میں اپنی طرف سے نہیں بلکہ علامہ حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کے افادات سے دوں گا۔ جس سے یہ چیز کھل کر سامنے آجائے گی کہ زندہ دلی سے مراد کیا ہے؟

وہ تہذیب الایمان میں لکھتے ہیں کہ:

''دل تین قسم کے ہیں۔ قلبِ سلیم (زندہ دل)، قلبِ میت (مردہ دل)، قلبِ مریض (بیمار دل)''

قلبِ سلیم یعنی زندہ دل کی تعریف انہوں نے ان الفاظ میں کی ہے:

«اَلَّذِيْ سَلِمَ مِنْ كُلِّ شَھْوَةٍ تُخَالِفُ اَمْرَ اللهِ وَنَھْيَه »

یعنی زندہ دل وہ ہوتا ہے جو ہر اس خواہش سے پاک ہو جو اللہ تعالیٰ کے حکمِ امتناعی اور اثباتی کے مخالف ہو۔

مزید برآں لکھتے ہیں:

«فَسَلِمَ مِنْ عَبُوْدِيَّةِ مَا سِوَاهُ مُخْلِصٌ لِلهِ مَحَبَّتِه وَخَوْفِه وَرَجَائِه وَالتَّوَكُّلِ عَلَيْهِ وَالْاِنَابَةِ اِلَيْهِ وَاِيْثَارِ مَرْضَاتِه فِيْ كُلِّ حَالٍ وَالتَّبَاعُدِ مِنْ سَخَطِه اِنْ اَحَبَّ اَحَبَّ فِي اللهِ وَاِنْ اَبْغَضَ اَبْغَضَ فِي اللهِ وَاِنْ اَعْطٰي اَعْطٰي لِلهِ وَاِنْ مَّنَعَ مَّنَعَ لِلهِ »

یعنی زندہ دل وہ ہوتا ہے جو اللہ رب العزت کی بندگی کے سوا ہر کسی کی بندگی سے محفوظ ہو جس میں اللہ تعالیٰ سے محبت اور ڈر۔ اسی سے امید اور اسی پر بھروسہ پورے اخلاص کے ساتھ پایا جائے جو ہر حالت میں اسی کے حضور جھکے، اسی کی رضا کو ترجیح دے۔ جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے دور بھاگے۔ اگر کسی کو پسند کرے تو خدا کے لئے اور اگر ناپسند کرے تو بھی خدا کے لئے۔ اگر کسی کو دینے کا جذبہ پیدا ہو تو اپنے رب کو خوش کرنے کے لئے اور اگر کسی کو نہ دینے کا ارادہ ہو تو بھی اسی کی مرضی کے مطابق۔

علاوہ ازیں زندہ دل میں یہ اوصاف بھی پائے جاتے ہیں مثلاً حیا، پاکیزگی، صبر و تحمل، شجاعت، غیرت، خودی، نیکی سے محبت اور برائی سے نفرت۔

جس دل میں یہ خوبیاں پائی جائیں، اس میں ایک نور، ایک چمک پیدا ہو جاتی ہے۔ ایسا دل در حقیقت تجلیاتِ الٰہی کا مرکز ہوتا ہے۔ ایسے دِل پر انوارِ الٰہیہ کی بارش ہوتی ہے۔ اس حالت میں یہ محض ایک گوشت کا لوتھڑا نہیں ہوتا بلکہ نورانیت کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر بن جاتا ہے۔ جس سے محبت و الفت، امن و آشتی، رحمت و رافت، صبر و تحمل اور ہمت و شجاعت کے بخارات اُٹھتے ہیں اور رفعت و سربلندی کے بادل بن کر ہر سو پھیل جاتے ہیں۔ جن سے علم و حکمت اور عقل و دانش کی ایسی بارش ہوتی ہے کہ مردہ دلوں کے لئے حیاتِ نو کا پیام لاتی ہے اور پیاسے دلوں کو سیراب کرتی ہے۔ چنانچہ زندگی کا صحیح معنوں میں لطف اس شخص کو حاصل ہوتا ہے جو اپنے سینے میں ایسا دل رکھتا ہے جو مذکورہ بالا خوبیوں سے متصف و مشرف ہو۔ لہٰذا ہم میں سے ہر ایک کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے دل کا جائزہ لے اور یہ دیکھے کہ ان میں سے کون کون سی چیزوں میں موجود ہے اور کون کون سی چیز سے دل محروم ہے۔ جو چیز موجود ہے اس کو مستقل بنایا جائے اور جس چیز سے محرومی ہے، اس کو پیدا کیا جائے ورنہ انسانیت کی تعمیر ممکن نہیں۔

آج مسلم قوم کا یہ سب سے بڑا المیہ ہے کہ اس معیار کا صاحبِ دل عنقا ہے۔ ہر سو جہالت و مردہ دلی کی بے شمار مثالیں موجود ہیں جب تک یہ چیز ختم نہیں ہوتی اس قوم کو سرخروئی نصیب نہیں ہو سکتی۔ حافظ ابنِ قیمؒ نے تو مردہ دل انسانوں کو حقیقی مردوں کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ فرماتے ہیں:

«وَھٰذَا مِنْ اَحْسَنِ التَّشْبِيْهِ لِاَنَّ اَبْدَانَهُمْ قُبُوْرُ قُلُوْبِھِمْ فَقَدْ مَاتَتْ قُلُوْبُھُمْ وَقَبْرَتْ فِيْ اَبْدَانِھِمْ »

کہ یہ ایک بہترین تشبیہ ہے اس لئے کہ ان کے بدن ان کے دلوں کی قبریں ہیں۔ دل مر گئے ہیں اور انہیں ان کے ابدان میں دفن کر دیا گیا ہے۔

یہاں پر مردہ دلی سے مراد یہ نہیں کہ ان دلوں کی حرکت یا دھڑکن بند ہو گئی ہے بلکہ اس سے مراد وہ دل ہیں جن میں مذکورہ چیزوں میں سے کوئی چیز نہ پائی جائے، جن پر جہالت و نحوست کی تہیں جمی ہوں اور جن میں زندگی پیدا کرنا صرف اسی طور ممکن ہے کہ مذکورہ اوصاف ان میں بتدریج پیدا کیے جائیں۔

آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ:

''جس طرح لوہا زنگ آلود ہو جاتا ہے بعینہٖ انسانی دل بھی زنگ آلود ہو جاتا ہے۔ آپ ﷺ سے دریافت کیا گیا، یا رسول اللہ ﷺ! دل کو صیقل کرنے یا اسے جلا بخشنے کا طریقہ کیا ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا، اللہ ربّ العزت کا تصور اور ہر آن اس کی یاد دلوں کو جلا بخشتی ہے اور ان میں نورانیت پیدا کرتی ہے۔''

غرضیکہ جو اپنی خوابیدہ انسانیت کو بیدار کرنا چاہتا ہے، اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے دل کا جائزہ لے اور بتدریج اصلاح کی کوشش کرے ورنہ بصورتِ دیگر انسان اور حیوان میں کوئی بنیادی فرق نہ ہو گا اور ایسا انسان ﴿ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سَافِلِيْنَ﴾ اور﴿اُوْلٰٓئِكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ﴾ کے زمرے میں آجائیگا۔

٭ تو کیا ہماری تخلیق کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم کھائیں پئیں اور مر جائیں؟

٭ کیا اس کائنات میں ہم پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی؟

٭ کیا ہمیں کسی ضابطۂ اخلاق کی ضرورت نہیں؟

٭ کیا ہم انسان ہیں؟ کیا ہم اشرف المخلوقات ہیں؟

٭ کیا ہمیں ''خلیفة الارض'' بننے کا شرف حاصل ہے؟

٭ اگر ہے تو کیوں؟

مسلمانو! ذرا اپنے دلوں کا جائزہ لو۔ دماغوں سے سوچو اور میرے سوالات کا جواب دو۔

ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے کی وعید قران و حدیث سے

  وعن ابن عمر رضی اللہ عنھماقال رسول اللہ ﷺ لا ینظر اللہ الی من جر ثوبہ خیلاء (متفق علیہ) ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ...