Sunday, April 13, 2025

ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے کی وعید قران و حدیث سے

 

وعن ابن عمر رضی اللہ عنھماقال رسول اللہ ﷺ لا ینظر اللہ الی من جر ثوبہ خیلاء (متفق علیہ)
ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
اللہ تعالی اس شخص کی طرف نہیں دیکھیں گےجس نے اپنا کپڑا تکبر کے ساتھ کھینچا ( اتفق علیہ)

دیکھے گا نہیں کا مطلب یہ ہے کہ رحمت اور محبت کی نظر سے نہیں دیکھے گا۔۔۔کیونکہ اللہ کی نظر سے کوئی چیز غائب نہیں ہو سکتی۔۔۔وجہ یہ ہے کہ متواضع و مسکین مہربانی کی نظر کا حق دار ہوتا ہے اور متکبر و مغرور قہر کی نظر کا مستحق ٹھہرتا ہے

فرمانِ الہی ہے
ان اللہ لا یحب من کان مختالا فخورا
یقینا اللہ تعالی تکبر کرنے والے شیخی خور کو پسند نہیں کرتے

ابوذرغفاری سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا
ثلاثة لا یکلھم اللہ یوم القيامة ولا یزکیھم ولھم عذاب الیم ۔۔۔المسبل والمنان والمنفق سلعتہ بالحلف الکاذب (مسلم)
تین آدمی ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ کلام کرے گا نہ انھیں پاک کرے گا اور ان کے لیے عذاب الیم ہے( کپڑا ) لٹکانے والا‘ احسان جتلانے والا اور جھوٹی قسم کے ساتھ اپنا سامان بیچنے والاا

زیر نظر حدیث میں من جر ثوبہکے الفاظ ہیں ان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آپﷺ نے صرف چادر لٹکانے سے منع نہیں کیا بلکہ قمیص شلواریا کوئی بھی کپڑا جو لٹکایا جائے اس سے منع فرمایا ہے
کپڑا لٹکانے پر یہ وعید عمومی ہے ۔۔۔۔مرد عورتیں دونوں اس میں داخل ہیں
ام سلمہ نے اس حدیث سے یہی بات سمجھی چنانچہ ترمذی اور نسائی میں ابن عمر کی اس روایت میں ساتھ ہی یہ الفاظ ہیں

مَن جرَّ ثوبَه مِن الخُيَلاءِ لم يَنْظُرِ اللهُ إليه ، قالت أمُّ سَلَمَةَ : يا رسولَ اللهِ ، فكيف تَصْنَعُ النساءُ بذيولهن ؟ قال : تُرْخينَه شِبْرًا . قالت: إذا تَنْكَشِفُ أقدامُهنَّ. قال : تُرْخِينَه ذِراعًا لا تزِدْنَ عليه.
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث: الألباني - المصدر: صحيح النسائي - الصفحة أو الرقم: 5351
خلاصة حكم المحدث: صحيح

ام سلمہ نے کہا کہ عورتیں اپنے دامن کا کیا کریں ۔۔۔آپﷺ نے فرمایا ایک بالشت لٹکا لیا کریں ۔۔انھوں نے عےض کیا کہ اس صورت میں ان کے پاؤں کھل جائیں گے آپﷺ نے فرمایا تو ایک ہاتھ لٹکا لیں اس سے زیادہ نہ لٹکائیں

اس سے معلوم ہوا کہ جو عورتیں کئی گز لمبا کپڑا اپنے پیچھے کھینچتے ہوئے چلتی ہیں خصوصا شادی کے موقع پر وہ بھی اس وعید میں شامل ہیں۔۔۔یورپی اقوام میں اوران کی دیکھا دیکھی مسلمان عورتوں میں بھی یہ رسم بد چل پڑی ہے کہ شدی کی تقریبات میں کئی گز لمبے غرارےپہنتی ہیں کبھی ٹیل سٹائل کی صورت میں اور کبھی فش سٹائل کی طرز  پر اور کبھی کبھار دوپٹہ فرش پر جھاڑو دے رہا ہوتا ہے۔۔۔اور بعض اوقات اسے کئی عورتوں نے اٹھا رکھا ہوتا ہے جو ساتھ ساتھ چلتی جاتی ہیں۔۔۔۔نمود و نمائش اور کبر و نخوت کی ماری ہوئی یہ عورتیں اللہ کی نگاہ رحمت سے محروم ہیں
عورت مردوں کی طرح اپنے ٹخنے ننگے نہ رکھے بلکہ پاؤں کو چھپائے مگر ایک ہاتھ (بالشت) سے زیادہ کپڑا نہ لٹکائے ۔۔۔بہتر یہ ہے کہ ایک بالشت ہی لٹکائے

جس نے اپنا کپڑا تکبر کے ساتھ کھینچاسے معلوم ہوا کہ تکبر کے بغیر کسی کا کپڑا نیچے چلا جائے تو وہ اس وعید میں داخل نہیں ہے۔۔۔چنانچہ صحیح بخاری میں عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ آپﷺ کا یہ فرمان سن کر حضرت ابو بکر نے کہا۔۔۔یا رسول اللہ ٰ! میری چادر کا ایک کنارہ لٹک جاتا ہے سوائے اس کے کہ میں اس کا خیال رکھوں تو آپﷺ نے فرمایا
انک لست ممن یصنعہ خیلاءا
تم ان لوگوں میں سے نہیں ہو جو یہ کام تکبر سے کرتے ہیں

حضرت عائشہ کی ایک روایت ہے 
کان ابو بکر احنی لا یستمسک ازارہ یسترخی عن حقویہ
ابو بکر کا قد جھکا ہوا تھا ۔۔۔اپنی چادر تھام نہیں سکتے تھے۔۔وہ ان کے کولہوں سے ڈھلک جاتی

اب صاف ظاہر ہے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ جان بوجھ کر چادر نیچے نہیں لٹکاتے تھے۔۔۔کبھی کبھی بے توجہی ہو جاتی تو نیچے ڈھلک جاتی ۔۔۔اس طرح اگر کسی کی چادر ڈھلک جاے تو نہ یہ تکبر ہے اور نہ اس پر مواخذہ ہے

اگر کوئی شخص جان بوجھ کر کپڑا لٹکائے اور کہے میں نے تکبر سے نہیں لٹکایاتو اس کی بات درست نہیں ۔۔۔کیونکہ رسول اللہ ﷺ نےمومن کی چادر کا مقام پنڈلی کا عضلہ مقرر فرمایا ہے۔۔۔۔زیادہ سے زیادہ ٹخنے کے اوپر تک رکھنے کی اجازت دی اور اس سے نیچے لٹکانا منع فرمایا
بطور دلیل چند احادیث پیشِ خدمت ہیں

إِزرةُ المسلمِ إلى نصفِ السَّاقِ ولا حرَجَ ولا جُناحَ فيما بينَهُ وبينَ الكَعبينِ ، ما كانَ أسفلَ من الكعبينِ فَهوَ في النَّارِ، مَن جرَّ إزارَهُ بطرًا لم ينظرِ اللَّهُ إليهِ
الراوي: أبو سعيد الخدري المحدث: ابن مفلح - المصدر: الآداب الشرعية - الصفحة أو الرقم: 3/521
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح

أخذ رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم بعَضَلَةِ ساقِي - أو ساقِهِ - فقال : هذا مَوْضِعُ الإزارِ، فإن أبيتَ فأسفلُ، فإن أبيتَ فلا حَقَّ للإزارِ في الكعبينِ
الراوي: حذيفة بن اليمان المحدث: الترمذي - المصدر: سنن الترمذي - الصفحة أو الرقم:1783
خلاصة حكم المحدث: حسن صحيح

جان بوجھ کرچادر لٹکانا تکبر میں داخل ہے ۔۔۔خواہ ایسا کرنے والا کہے کہ میں نے اسے تکبر سے نہیں لٹکایا
جابر بن سلیم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے کئی اور باتوں کے علاوہ فرمایا

وارفع ازارک الی نصف الساق فان ابیت فالی الکعبین وایاک واسبال الازار فانھا من المخیلۃ وان اللہ لا یحب المخیلۃ (ابو داؤد)
اور اپنے چادر نصف پنڈلی تک اونچی رکھو اگر نہیں مانتے تو ٹخنوں تک اور چادر لٹکانے سے بچو کہ یہ تکبر سے ہے اور اللہ تعالی تکبر کو یقینا پسند نہیں فرماتا

اگر کوئی شخص اپنی پنڈلیاں ٹیڑھی یا باریک ہونے کی وجہ سے چادر لٹکائےتو یہ بھی ناجائز ہے 

أبصر رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ رجلًا يجرُّ إزارَهُ، فأسرع [إليه] أو هرول، فقال: ارْفَعْ إِزَارَكَ، وَاتَّقِ اللهَ، قال: إني أحنفُ تَصطَكُّ ركبتايَ، قال ارْفَعْ إِزَارَكَ، فَإِنَّ كُلَّ خّلْقِ اللهِ حَسَنٌ.فما رُؤِيَ [ذلك] الرجلُ بعدُ إلا إزارَه يصيبُ أنصافَ ساقيْهِ، أو إلى أنصافِ ساقيهِ.
الراوي: الشريد بن سويد الثقفي المحدث: ابن كثير - المصدر: جامع المسانيد والسنن -الصفحة أو الرقم: 5198
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح

رسول اللہﷺ نے ایک آدمی کودیکھاجو اپنی چادر کھینچتا ہوا جا رہا تھاآپﷺ اس کی طرف جلدی سے گئے یا دوڑ کر گئےاور فرمایا
اپنی چادر اوپر اٹھاؤ اور اللہ سے ڈرو
اس نے کہا میرے پاؤں ٹیڑھے ہیں میرے گھٹنے آپس میں رگڑ کھاتے ہیں 
آپﷺ نے فرمایا
اپنی چادر اوپر اٹھاؤ کیونکہ اللہ کی پیدا کی ہوئی ہر چیز ہی خوبصورت ہے
تو اس کے بعد اس آدمی کو جب بھی دیکھا گیا اس کی چادر نصف پنڈلی پر ہوتی تھی

اس حدیث سے اس معاملے کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔۔ایک جائز عذر کی موجودگی کے باوجود آپﷺ نے اسے ناپسند فرمایا تو جو حضرات بغیر کسی مجبوری اور معذوری کے چادر لٹکاتے ہیں انھیں اس حدیث پر غور کرنا چاہیے

جو شخص جان بوجھ کر چادر یا شلوار ضرورت سے بڑی سلواتا ہےاور اسے ٹخنے سے نیچے رکھتا ہے تکبر کے علاوہ اس کے ناجائز ہونے کی چند اور وجہیں ہیں

پہلی وجہ

اسراف اور فضول خرچی ہے جو کہ حرام ہے کیونکہ اللہ تعالی نے اس سے منع فرمایا ہے
ولا تسرفوا ان اللہ لا یحب المسرفین
اور فضول خرچی نہ کرو اللہ تعالی فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا

دوسری وجہ

عورتوں سے مشابہت ہے جو اس میں اسراف سے بھی زیادہ نمایاں ہے ابو ہریرۃ سے روایت ہے
ان رسول اللہ ﷺ لعن المراۃ تلبس لبسۃ الرجل والرجل یلبس لبسۃ المراۃ
رسول اللہ ﷺ نے اس عورت پر لعنت فرمائی جو مرد کی طرح کا لباس پہنے اور اس مرد پر لعنت فرمائی جو عورت کا لباس پہنے
یہ بات واضح ہے کہ عورت اگر اپنے ٹخنے ننگے رکھے تو یہ مرد سے مشابہت ہے اور مرد اپنے ٹخنے ڈھانک کر رکھے تو یہ عورت سے مشابہت ہے

تیسری وجہ

چادر لٹکانے والے کی چادر کے ساتھ کوئی نہ کوئی نجاست لگنے کا اندیشہ رہتا ہے جبکہ اللہ تعالی نے حکم دیا ہے
وثیابک فطھر
اپنےکپڑے پاک رکھ
صحیح بخاری میں عمر بن خطاب کی شہادت کا مفصل واقعہ مذکور ہےعمرو بن میمون بیان کرتے ہیں
جب امیر المومنین کو پیٹ میں خنجرمارا گیا تو انھیں اٹھا کر گھر لایا گیا ہم بھی ساتھ گئے نبیذ لائی گئی انھوں نے پی لی تو پیٹ سے نکل گئی پھر دودھ لاسیا گیا آپ نے پیا تو وہ بھی زخم سے نکل گیا ۔۔۔۔لوگوں کو یقین ہو گیا کہ آپ شہید ہو جائیں گے اب ہم ان کے پاس داخل ہوئے اور لوگ بھی آنے لگے اور ان کی تعریف کرنے لگے ایک نوجوان آیا اس نے کہا امیر المومنین !اللہ کی طرف سے خوش خبری پر خوش ہو جائیے۔۔۔۔۔۔۔جب وہ جانے لگا تو اس کی چادر زمین پر لگ رہی تھی فرمایا اس نوجوانکو میرے پاس واپس لاؤ پھر فرمایا
یا ابن اخی ارفع ثوبک فانہ انقی لثوبک واتقی لربک
بھتیجے اپنا کپڑا اوپر اٹھا لو کیونکہ یہ تمہارے کپڑے کو صاف رکھنے کا باعث ہے اور تمہارے پروردگار سے زیادہ ڈرنے کا باعث ہے
یہاں ان لوگوں کو غور کرنا چاہیے جو ٹخنوں سے کپڑا لٹکانے کو معمولی خیال کرتے ہیں کہ امیر المومنین نے اتنی تکلیف میں بھی کپڑا لٹکانے سے منع فرمانے کو ضروری سمجھا ۔




Sunday, February 9, 2025

🏆کیا انسان اشرف مخلوقات ہے

اس جہانِ رنگ و بو میں کروڑوں نہیں اربوں انسان زندگی بسر کر رہے ہیں۔ مسلم بھی اور غیر مسلم بھی، نیک بھی اور بَد بھی، ظالم بھی آباد ہیں اور مظلوم بھی، جاہل افراد بھی موجود ہیں اور دانش مند بھی۔ مگر اس دَور میں نیکی کی بجائے بدی کا، عدل و انصاف کی بجائے ظلم و تشدّد کا اور امن و آشتی کی بجائے جہالت و بربریت کا غلبہ ہے۔ ہر طرف تاریکی چھائی ہوئی ہے۔ قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے۔ بے حیائی اور فحاشی نقطۂ عروج تک پہنچی ہوئی ہے۔ اقدار مٹ رہی ہیں، عزتیں لٹ رہی ہیں اور عصمتیں داغدار ہو رہی ہیں۔ خصوصاً مسلمان قوم آج ذِلت و رسوائی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتی چلی جا رہی ہے۔ دیگر اقوام اسے تر نوالہ سمجھ کر ہڑپ کرنے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔ انسانیت خوابیدہ ہے، اسے بیدار کرنے کی ضرورت ہے، دل مردہ ہو چکے ہیں، ان میں زندگی کی لہر دوڑانا ناگزیر ہے، دل بے شمار بیماریوں کا شکار ہیں، ان کا علاج از بس ضروری ہے۔

دل کو جسم انسانی میں ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے جو کیفیت دل کی ہوتی ہے اعمال اسی کی ترجمانی کرتے ہیں۔ دل میں فساد و بربریت ہو تو اعمال سے یقیناً درندگی ٹپکے گی اور اس کے برعکس اگر دل میں امن و آشتی کے جذبات ہوں تو اعمال سے محبت و الفت کے زمزمے پھوٹیں گے۔ اسی لئے تو آنحضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:

«اَلَا فِي الْجَسَدِ مُضْغَةٌ اِذَا صَلُحَتْ صَلُحَ الْجَسَدُ كُلُّه وَاِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّه اَلَا وَھِيَ الْقَلْبُ »

کہ جسم انسانی میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ درست ہوتا ہے تو جسم کے تمام اعضاء درست کام کرتے ہیں۔ جب اس میں خرابی پیدا ہوتی ہے تو تمام جسم میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔

خبردار! وہ گوشت کا ٹکڑا انسانی دل ہے۔

تعمیرِ انسانیت کے لئے سب سے پہلی اور بنیادی شرط یہ ہے کہ دل میں زندگی پیدا کی جائے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زندہ دلی سے مراد کیا ہے؟ کیا اس دل کو زندہ نہیں کہا جائے گا جو معمول کے مطابق حرکت کرتا ہو اور جو دوسرے اعضاء کو باقاعدگی سے خون پہنچاتا ہو؟ زندہ دلی اسی کا نام ہے تو پھر اس کائنات میں کس کا دل مردہ ہے؟

اس سوال کا جواب میں اپنی طرف سے نہیں بلکہ علامہ حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کے افادات سے دوں گا۔ جس سے یہ چیز کھل کر سامنے آجائے گی کہ زندہ دلی سے مراد کیا ہے؟

وہ تہذیب الایمان میں لکھتے ہیں کہ:

''دل تین قسم کے ہیں۔ قلبِ سلیم (زندہ دل)، قلبِ میت (مردہ دل)، قلبِ مریض (بیمار دل)''

قلبِ سلیم یعنی زندہ دل کی تعریف انہوں نے ان الفاظ میں کی ہے:

«اَلَّذِيْ سَلِمَ مِنْ كُلِّ شَھْوَةٍ تُخَالِفُ اَمْرَ اللهِ وَنَھْيَه »

یعنی زندہ دل وہ ہوتا ہے جو ہر اس خواہش سے پاک ہو جو اللہ تعالیٰ کے حکمِ امتناعی اور اثباتی کے مخالف ہو۔

مزید برآں لکھتے ہیں:

«فَسَلِمَ مِنْ عَبُوْدِيَّةِ مَا سِوَاهُ مُخْلِصٌ لِلهِ مَحَبَّتِه وَخَوْفِه وَرَجَائِه وَالتَّوَكُّلِ عَلَيْهِ وَالْاِنَابَةِ اِلَيْهِ وَاِيْثَارِ مَرْضَاتِه فِيْ كُلِّ حَالٍ وَالتَّبَاعُدِ مِنْ سَخَطِه اِنْ اَحَبَّ اَحَبَّ فِي اللهِ وَاِنْ اَبْغَضَ اَبْغَضَ فِي اللهِ وَاِنْ اَعْطٰي اَعْطٰي لِلهِ وَاِنْ مَّنَعَ مَّنَعَ لِلهِ »

یعنی زندہ دل وہ ہوتا ہے جو اللہ رب العزت کی بندگی کے سوا ہر کسی کی بندگی سے محفوظ ہو جس میں اللہ تعالیٰ سے محبت اور ڈر۔ اسی سے امید اور اسی پر بھروسہ پورے اخلاص کے ساتھ پایا جائے جو ہر حالت میں اسی کے حضور جھکے، اسی کی رضا کو ترجیح دے۔ جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے دور بھاگے۔ اگر کسی کو پسند کرے تو خدا کے لئے اور اگر ناپسند کرے تو بھی خدا کے لئے۔ اگر کسی کو دینے کا جذبہ پیدا ہو تو اپنے رب کو خوش کرنے کے لئے اور اگر کسی کو نہ دینے کا ارادہ ہو تو بھی اسی کی مرضی کے مطابق۔

علاوہ ازیں زندہ دل میں یہ اوصاف بھی پائے جاتے ہیں مثلاً حیا، پاکیزگی، صبر و تحمل، شجاعت، غیرت، خودی، نیکی سے محبت اور برائی سے نفرت۔

جس دل میں یہ خوبیاں پائی جائیں، اس میں ایک نور، ایک چمک پیدا ہو جاتی ہے۔ ایسا دل در حقیقت تجلیاتِ الٰہی کا مرکز ہوتا ہے۔ ایسے دِل پر انوارِ الٰہیہ کی بارش ہوتی ہے۔ اس حالت میں یہ محض ایک گوشت کا لوتھڑا نہیں ہوتا بلکہ نورانیت کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر بن جاتا ہے۔ جس سے محبت و الفت، امن و آشتی، رحمت و رافت، صبر و تحمل اور ہمت و شجاعت کے بخارات اُٹھتے ہیں اور رفعت و سربلندی کے بادل بن کر ہر سو پھیل جاتے ہیں۔ جن سے علم و حکمت اور عقل و دانش کی ایسی بارش ہوتی ہے کہ مردہ دلوں کے لئے حیاتِ نو کا پیام لاتی ہے اور پیاسے دلوں کو سیراب کرتی ہے۔ چنانچہ زندگی کا صحیح معنوں میں لطف اس شخص کو حاصل ہوتا ہے جو اپنے سینے میں ایسا دل رکھتا ہے جو مذکورہ بالا خوبیوں سے متصف و مشرف ہو۔ لہٰذا ہم میں سے ہر ایک کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے دل کا جائزہ لے اور یہ دیکھے کہ ان میں سے کون کون سی چیزوں میں موجود ہے اور کون کون سی چیز سے دل محروم ہے۔ جو چیز موجود ہے اس کو مستقل بنایا جائے اور جس چیز سے محرومی ہے، اس کو پیدا کیا جائے ورنہ انسانیت کی تعمیر ممکن نہیں۔

آج مسلم قوم کا یہ سب سے بڑا المیہ ہے کہ اس معیار کا صاحبِ دل عنقا ہے۔ ہر سو جہالت و مردہ دلی کی بے شمار مثالیں موجود ہیں جب تک یہ چیز ختم نہیں ہوتی اس قوم کو سرخروئی نصیب نہیں ہو سکتی۔ حافظ ابنِ قیمؒ نے تو مردہ دل انسانوں کو حقیقی مردوں کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ فرماتے ہیں:

«وَھٰذَا مِنْ اَحْسَنِ التَّشْبِيْهِ لِاَنَّ اَبْدَانَهُمْ قُبُوْرُ قُلُوْبِھِمْ فَقَدْ مَاتَتْ قُلُوْبُھُمْ وَقَبْرَتْ فِيْ اَبْدَانِھِمْ »

کہ یہ ایک بہترین تشبیہ ہے اس لئے کہ ان کے بدن ان کے دلوں کی قبریں ہیں۔ دل مر گئے ہیں اور انہیں ان کے ابدان میں دفن کر دیا گیا ہے۔

یہاں پر مردہ دلی سے مراد یہ نہیں کہ ان دلوں کی حرکت یا دھڑکن بند ہو گئی ہے بلکہ اس سے مراد وہ دل ہیں جن میں مذکورہ چیزوں میں سے کوئی چیز نہ پائی جائے، جن پر جہالت و نحوست کی تہیں جمی ہوں اور جن میں زندگی پیدا کرنا صرف اسی طور ممکن ہے کہ مذکورہ اوصاف ان میں بتدریج پیدا کیے جائیں۔

آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ:

''جس طرح لوہا زنگ آلود ہو جاتا ہے بعینہٖ انسانی دل بھی زنگ آلود ہو جاتا ہے۔ آپ ﷺ سے دریافت کیا گیا، یا رسول اللہ ﷺ! دل کو صیقل کرنے یا اسے جلا بخشنے کا طریقہ کیا ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا، اللہ ربّ العزت کا تصور اور ہر آن اس کی یاد دلوں کو جلا بخشتی ہے اور ان میں نورانیت پیدا کرتی ہے۔''

غرضیکہ جو اپنی خوابیدہ انسانیت کو بیدار کرنا چاہتا ہے، اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے دل کا جائزہ لے اور بتدریج اصلاح کی کوشش کرے ورنہ بصورتِ دیگر انسان اور حیوان میں کوئی بنیادی فرق نہ ہو گا اور ایسا انسان ﴿ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سَافِلِيْنَ﴾ اور﴿اُوْلٰٓئِكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ﴾ کے زمرے میں آجائیگا۔

٭ تو کیا ہماری تخلیق کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم کھائیں پئیں اور مر جائیں؟

٭ کیا اس کائنات میں ہم پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی؟

٭ کیا ہمیں کسی ضابطۂ اخلاق کی ضرورت نہیں؟

٭ کیا ہم انسان ہیں؟ کیا ہم اشرف المخلوقات ہیں؟

٭ کیا ہمیں ''خلیفة الارض'' بننے کا شرف حاصل ہے؟

٭ اگر ہے تو کیوں؟

مسلمانو! ذرا اپنے دلوں کا جائزہ لو۔ دماغوں سے سوچو اور میرے سوالات کا جواب دو۔

Monday, September 18, 2023

جمعہ مبارک کہنا کیسا ہے- کیا اس کی حقیقت رسول صلى الله عليه وسلم کو نہیں معلوم تھی

جمعہ مبارک کہنا کیسا ہے ؟

📖جواب

*آجکل سوشل میڈیا پر کثرت سے جمعہ مبارک کی پوسٹ کی جاتی ہیں، جمعہ یقیناً مبارک دن ہے عبادت کے لحاظ سے ، لیکن جمعہ کی مبارک باد دینے کی کوئی دلیل قرآن وحدیث سے نہیں ملتی، ما سوائے اسکے کہ اس دن کو سب دنوں سے افضل کہا گیا ہے..*

✨تیرہ: یہ عید کا دن ہےجو ہر ہفتے دہرایا جاتا ہے.

زاد المعاد، 1/369

*🍄🍃اس طرح مسلمانوں کی 3 عیدیں ہیں۔ عید الفطر اور عید الاضحی، جو سال میں ایک بار آتی ہیں۔ اور جمعہ جو ہر ہفتے میں ایک بار دہرایا جاتا ہے۔*

🕋🤲مسلمانوں کا عید الفطر اور عید الاضحی کے مواقع پر ایک دوسرے کو مبارک باد دینا صحابہ (ر۔ض) سے روایت ہے۔

*☝📛👈جہاں تک جمعے کے دن ایک دوسرے کو مبارکباد دینے کا تعلق ہے، یہ ثابت نہیں ہے۔کیونکہ حقیقت میں جمعہ عید ہے یہ صحابہ (ر۔ض) جانتے تھے، اور وہ اس کے فضائل کے بارے میں ہم سے زیادہ علم رکھتےتھے،اور وہ اِس کا احترام کرتے تھے۔ مگر ایسی کوئی روایت نہیں ہے کہ جس سے ثابت ہو، کہ وہ ایک دوسرے کو جمعے کی مبارکباد دیتے تھے۔ اور تمام نیکی ان کی پیروی میں ہے (اللہ ان سے راضی ہو )*

🗒️ہر جمعہ کو ٹیکسٹ پیغامات بھیجنا اوراس جملے پر اختتام کرنا "جمعہ مبارک" ،کے بارے میں کیا حکم ہے؟*

انہوں نے جواب دیا:

*🔖ابتدائی نسل جمعہ کو ایک دوسرے کو مبارک بادنہیں دیتی تھی تو ہمیں وہ متعارف نہیں کرانا چاہیے جو انہوں نے نہیں کیا۔*
( انتہی )

📚اسی طرح کا ایک فتوی شیخ سلیمان رحمہ الماجد  کی طرف سے جاری کیا گیا تھا جب انہوں نے کہا:

*📘🍃ہم نہیں سوچتے کہ اس طرح ایک دوسرے کو جمعہ مبارک کہنا درست ہے، کیونکہ یہ دعاؤں اور ذکر میں آتا ہے، جس کی بنیاد (قرآن/سنت) پر ہونی چاہیے۔ کیونکہ یہ خالصتا عبادت کا معاملہ ہے۔ اوراگر یہ اچھا ہے، تو نبی (صلی اللہ اللہ کی صلی اللہ علیہ وسلم) اور ان کے صحابہ (اللہ ان سے راضی ہو ) نے ہم سے پہلے کیا ہوتا۔*

💠✨اگر کوئی بھی یہ مشورہ دیتا ہے کہ اِس کی اجازت ہےتو اِس کا مطلب ہے کہ ہمیں پنجگانہ نماز اور دوسری عبادات کے بعد بھی دعا اور مبارکباد دینی چاہیے۔ اور ابتدائی نسلوں نے اِن مواقع پر دعائیں نہیں دی تھی۔
( انتہی )

*☝👈لہٰذا بجائے اسکے کہ ہم جمعہ کی مبارک باد دیں ، جسکا کوئی ثواب نہیں ، کیوں نہ ہم وہ کام جمعہ کے روز کریں جنکے کرنے سے اللہ بھی راضی ہو اور اعمال نامہ بھی بھاری ہو اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی عمل ہو۔*

📝🍃مثلاََ 

*1- جمعہ کے روز غسل کا اہتمام کرنا۔*
*2- سورہ کہف کی تلاوت* 
*3- درود شریف کثرت سے پڑھنا* 
*4- خوشبو لگانا*
*5- مسجد میں سب سے پہلے پہنچ کر اونٹ جتنی قربانی کا ثواب حاصل کرنا اور امام کے قریب بیٹھ کر خطبہ سننا۔*
*6- مسواک کرنا گو کہ یہ جمعہ کے لئے خاص نہیں اسکا اہتمام ہر روز بلکہ ہر نماز سے پہلے کرنا چاہیے ۔*
*7- امام کا خطبہ خاموشی سے سننا۔*
*8- دعاؤں کی کثرت کرنا۔*

💠✨یہ تھی وہ مختصر تفصیل جس سے کم و بیش ہر بندہ واقف ہوگا تو کیا ان کاموں سے بھی بڑھ کر ہےجمعہ کی مبارک باد دینا؟؟؟

*پیارے بھائیو اور بہنو! اللہ سبحانہ و تعالٰی آپکے درجات بلند فرمائے اس فیس بک کی بدعت کو چھوڑ کر اللہ کو راضی کرنے والے کام کریں ۔*

اللہ سبحانہ و تعالٰی آپ کو اور ہم سب کو صحیح اور خالص دین پر چلنے اور عمل کرنے والا بنائے ۔ آمین یارب العالمین.

╼ ⃟ ⃟⃟ ╼𖣔╼ ⃟ ⃟╼𖣔╼ ⃟ ⃟  ╼𖣔╼ ⃟ ⃟╼𖣔

Tuesday, January 13, 2015

🤲نمازوں میں فرض و نفل رکعات کی تعداد

 نمازوں میں فرض و نفل رکعات کی تعداد

نمازِ پنجگانہ کی رکعات کی صحیح تعداد کے متعلق عام طور پر عامۃ الناس میں مختلف آرا پائی جاتی ہیں جیسے عشاء کی نماز کی ١٧ رکعات وغیرہ اور پھر ان رکعات کے مؤکدہ اور غیر مؤکدہ نوافل کے تعین کامسئلہ بھی زیر بحث رہتاہے۔ذیل میں افادۂ عام کے لیے نمازِ پنجگانہ کے مؤکدہ اور غیرمؤکدہ نوافل اور فرائض کی صحیح تعداد کو دلائل کے ساتھ پیش کر دیا گیا ہے۔
فرائض: جمعہ کے علاوہ ہر دن کی پانچ نمازوں کے فرائض کی تعداد کل ١٧ ہے جو احادیث ِصحیحہ اور اُمت کے عملی تواتر سے ثابت ہیں۔
سنت ِمؤکدہ: اسی طرح نمازوں کے فرائض سے پہلے یا بعد کے نوافل جو آپﷺ کی عادت اور معمول تھایا پھر آپﷺسے ان کی تاکیدو ترغیب بھی منقول ہے، ان کی تعداد کم ازکم١٢ ہے۔ ان میں سے ١٢ نوافل کے بارے میں سیدہ اُمّ حبیبہؓ فرماتی ہیں:
«سمعت رسول اﷲﷺ یقول: «من صلّىٰ اثنتي عشرة رکعة في یوم ولیلة بُني له بهن بیت في الجنة»1
''میں نے رسول اللہﷺ سے سنا كہ جو شخص دن اور رات میں ١٢ رکعات پڑھ لے، اُن کی وجہ سے اس کے لئے جنت میں ایک محل بنا دیا جاتا ہے۔''
آپ ﷺنے فرمایا:
«من صلى في یوم ولیلة ثنتي عشرة رکعة بنی له بیت في الجنة أربعًا قبل الظهر ورکعتین بعدها ورکعتین بعد المغرب ورکعتین بعد العشاء ورکعتین قبل صلاة الغداة»2
''جس نے رات اور دن میں ١٢ رکعت (نوافل) ادا کیے، جنت میں اس کے لئے گھر بنا دیا جاتا ہے: چار رکعت قبل از ظہر ، دو بعد میں، دو رکعت مغرب کے بعد، دو عشاء کے بعد اور دو صبح کی نماز کے بعد۔''
نمازِ فجر تعداد رکعات : ٤ (٢ نفل +٢ فرض)
نوافل: اُمّ المومنین سیدہ حفصہؓ فرماتی ہیں :
«کان إذا سکت المؤذن من الأذان لصلاة الصبح، وبدأ الصبح، رکع رکعتین خفیفتین قبل أن تقام الصلاة»3
''جب مؤذن اذان کہہ لیتااور صبح صادق شرو ع ہوجاتی تو آپﷺ جماعت کھڑی ہونے سے پہلے مختصر سی دو رکعتیں پڑھتے۔''
فرائض:سیدناابو برزہ اسلمیؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ صبح کی نماز پڑھاتے:
«وکان یقرأ في الرکعتین وأحدهما ما بین الستین إلىٰ المائة»4
'' آپﷺ دو رکعتوں یا کسی ایک میں 60سے 100 تک آیات تلاوت فرماتے تھے''
٭ آپﷺ سے فجر کے فرائض سے پہلے دو رکعت نماز پرمداومت یعنی ہمیشگی ثابت ہے جیساکہ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں:
«إن النبيﷺ لم یکن علی شيء من النوافل أشد معاهدة منه علىٰ رکعتین قبل الصبح»5
''بیشک نبی ﷺنوافل میں سے سب سے زیادہ اہتمام صبح کی سنتوں کا کرتے تھے۔''
ظہر : زیادہ سے زیادہ رکعات :١٢ (٢یا ٤ نفل+٤ فرض+٢ یا ٤ نفل)
نوافل: ٭ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں :
«کان یصلي في بیت قبل الظهر أربعًا ثم یخرج فیصلي بالناس ثم یدخل فیصلي رکعتین»6
''آپ ﷺ میرے گھر میں ظہر سے پہلے چار رکعات نوافل ادا کرتے اور لوگوں کو نماز پڑھانے کے بعد گھر واپس آکر دو رکعات پڑھتے تھے۔''
٭ سیدناابن عمر فرماتے ہیں:
«صلَّیت مع النبي سجدتین قبل الظهر والسجدتین بعد الظهر»7
''میں نے نبیﷺ کے ساتھ دو رکعت نوافل ظہر سے پہلے اور دو ظہر کی نماز کے بعد پڑھے۔''
٭ سیدہ اُمّ حبیبہؓ سے روایت ہے کہ آپﷺنے فرمایا:
«من حافظ على أربع رکعات قبل الظهر وأربع بعدها حرم على النار»8
''جو شخص ظہر سے قبل اور بعد چار چار رکعات نوافل کا اہتمام کرے، وہ آگ پر حرام ہو جائے گا۔''
٭ مذکورہ بالا روایات سے ظہرکی سنتوں کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ زیادہ سے زیادہ ١٢ ہیں اور ان میں کم از کم ٤ رکعات نوافل مؤکدہ ہیں۔جیسا کہ سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں:
«إن النبي کان لا یدع أربعًا قبل الظهر ورکعتین قبل الغداة»9
''نبی ﷺظہر سے پہلے کی چار رکعات اور فجر سے پہلے کی دو رکعات کبھی نہ چھوڑتے۔''
فرائض: سیدنا ابوقتادہؓ سے روایت ہے :
«أن النبي کان یقرأ في الظهر في الأولیین بأمّ الکتاب وسورتین وفي الرکعتین الأخریین بأمّ الکتاب...الخ»10
''بے شک نبیﷺظہر کی پہلی دو رکعتوں میں سورۂ فاتحہ اور ایک ایک سورت پڑھتے اور آخری دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ پڑھتے...الخ''
عصر: تعداد رکعات : ١٠ (٤ نفل+٤ فرض+٢ نفل)
نوافل: ٭سیدنا علیؓ سے روایت ہے :
«کان النبي یصلي قبل العصر أربع رکعات»
''نبی ﷺعصر سے پہلے چار رکعات نوافل ادا کرتے تھے۔''11
٭ ابن عمر ؓسے روایت ہے آپﷺنے فرمایا:
«رحم اﷲ امرأ صلى قبل العصر أربعًا»12
''اللہ تعالیٰ اس پر رحمت فرمائیں جو عصر کی نماز سے قبل چار رکعات پڑھے۔''
٭ سیدنا ابوسعیدخدری ؓسے روایت ہے، فرماتے ہیں:
«کنا نحزر قیام رسول اﷲ في الظهر والعصر...وحزرنا قیامه في الرکعتین الأولیین من العصر علی قدر قیامه من الأخریین من الظهر وفي الأخریین من العصر علی النصف من ذلك»13
''ہم رسول اللہﷺ کے ظہر اور عصر کے قیام کا اندازہ لگایا کرتے تھے...عصر کی نماز کی پہلی دو رکعتوں کے قیام کا اندازہ اس طرح کرتے کہ وہ ظہر کی آخری دو رکعتوں کے قیام کے برابر ہوتا اور آخری دو رکعتوں کا قیام عصر کی پہلی دو رکعتوں سے نصف ہوتاتھا۔''
٭ سیدہ عائشہ ؓفرماتی ہیں:
«ما ترك النبي ﷺ السجدتین بعد العصر عندي قط»14
''آپ ﷺ نے میرے پاس کبھی بھی عصر کے بعد دو رکعت نوافل پڑھنا ترک نہیں کیے۔''
٭ عصر کی فرض نماز سے پہلے چار رکعت نوافل آپﷺسے ثابت ہیں، کیونکہ اس پر آپ ﷺکا دوام ثابت نہیں،اس لیے یہ نوافل مؤکدہ نہیں ہیں۔
سیدنا علی ؓ فرماتے ہیں:
«یصلي قبل الظهر أربعًا وبعدها رکعتین وقبل العصر أربعًا یفصل بین کل رکعتین بالتسلیم»15
''اور نبی کریمﷺ نے ظہر سے پہلے چار رکعت نوافل ادا کئے اور دو بعد میں اسی طرح چار رکعت نوافل عصر کی نماز سے پہلے ادا کئے اور آپﷺنے ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرا۔''
٭ یاد رہے کہ ظہر اور عصر کے پہلے چار چار نوافل کو دو دو رکعت کر کے پڑھنا سنت ہے جیسا کہ مذکورہ روایت سے ثابت ہوتا ہے۔
مغرب: تعداد رکعات: ٥ (٣ فرض+٢ نفل)
فرائض: سیدناعبد اللہ بن عمر سے روایت ہے:
«جمع رسول اﷲ ﷺ بین المغرب والعشاء بجمع، صلى المغرب ثلاثًا والعشاء رکعتین بـإقامة واحدة»16
''رسول اللہﷺ نے(سفر میں) مغرب اور عشاء کو ایک ہی وقت میں جمع کیا۔ آپ نے مغرب کی تین رکعت اور عشاء کی دو رکعتیں ایک ہی اقامت سے پڑھائیں۔''
نوافل: سیدہ عائشہؓ نبیﷺ کی فرض نمازوں سے پہلے اور بعد کے نوافل بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں:«وکان یصلي بالناس المغرب ثم یدخل فیصلي رکعتین»17
''آپ لوگوں کو مغرب کی نماز پڑھاتے پھر میرے گھر میں داخل ہوتے اور دو رکعت نماز نوافل ادا کرتے۔''
نوٹ: مغرب کی نما زسے پہلے دو رکعت نفل بھی آپﷺ سے ثابت ہیں۔ عبداللہ مزنی سے روایت ہے کہ «إن رسول اﷲصلی قبل المغرب رکعتین»18
''رسول اللہﷺنے مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعت نفل ادا کیے۔''
لیکن یہ دو رکعت مؤکدہ نہیں ہیں۔عبداللہ مزنی سے ہی روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
«صلوا قبل صلاة المغرب» قال في الثالثة: «لمن شاء» کراهیة أن یتخذها الناس سنة»19
''مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعت پڑھو تین دفعہ فرمایا اور تیسری مرتبہ فرمایا جو چاہے۔ تاکہ کہیں لوگ اسے مؤکدہ نہ سمجھ لیں۔''
عشاء: تعداد رکعات کم از کم ایک وتر: ٧ (٤فرض +٢نفل+١وِتر)
فرائض: سیدناعمر نے سیدنا سعد سے اہل کوفہ کی شکایت کے بارے میں پوچھا کہ آپ نماز اچھی طرح نہیں پڑھاتے تو آپ نے جواب دیا:
«أما أنا واﷲ فإني کنت أصلي بهم صلاة رسول اﷲ ﷺ، ما أخرم عنها، أصلي صلاة العشاء فأرکد في الأولیین، وأخف في الأخریین قال: ذلك الظن بك یا أباإ سحٰق»20
''اللہ کی قسم! میں اُنہیں نبیﷺ کی نماز کی طرح ہی نماز پڑھاتا تھا اور اس سے بالکل کوتاہی نہ کرتا تھا۔ میں عشاء کی نماز جب پڑھاتا تو پہلی دورکعتوں کو لمبا کرتا اور آخری دو رکعتوں کو ہلکاکرتا ۔ سیدناعمر فرمانے لگے:اے ابو اسحٰق !تمہارے بارے میں میرا یہی گمان تھا۔''
نوافل: عشاء کی فرض نمازکے بعدنبیﷺسے ٢ اور ٤ نوافل پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے
٭ سیدناعبداللہ بن عمر کہتے ہیں:
«صلیت مع النبي... وسجدتین بعد العشاء... الخ»21
''میں نے نبیﷺکے ساتھ . . . عشاء کے بعد دو رکعات نماز پڑھی۔''
٭ سیدنا ابن عباس فرماتے ہیں:
''میں نے اپنی خالہ میمونہؓ کے گھر میں ایک رات گزاری:« فصلى رسول اﷲ ﷺ العشاء ثم جاء فصلى أربع رکعات ثم نام»22
''آپﷺ نے عشا کی نماز پڑھائی، پھر گھرآئے اور چار نوافل اداکئے اور سوگئے''
٭نبیﷺ کے عام حکم «بین کل أذانین صلاة، بین کل أذانین صلاة»ثم قال في الثالثة «لمن شاء»23
''آپﷺ نے فرمایا: ہر دو اذانوں(اذان اور اقامت) کے درمیان نماز ہے، ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے۔ تیسری دفعہ آپﷺ نے فرمایا جو چاہے۔''
سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر فرض نمازسے پہلے دو رکعت نماز کی ترغیب ہے۔ لہٰذا اس مشروعیت کے مطابق عشاء کی نماز سے پہلے دو رکعت نوافل ادا کئے جاسکتے ہیں۔
٭ وتر کے بعد دو سنتیں پڑھنا آپﷺسے ثابت ہے جیسا کہ اُمّ سلمہ سے روایت ہے:
«أن النبي کان یصلي بعد الوتر رکعتین»24
''آپ ﷺوتر کے بعد دو رکعت نوافل ادا کرتے تھے۔''
وِتر
آپﷺ کی قولی و فعلی احادیث سے ایک، تین، پانچ ،سات اور نو رکعت وتر ثابت ہیں۔
٭ سیدنا ایوب انصاریؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
«الوتر حق على کل مسلم، فمن أحب أن یوتر بخمس فلیفعل، ومن حب أن یوتر بثلاث فلیفعل، ومن أحب أن یوتر بواحدة فلیفعل»25
''وتر ہر مسلمان پر حق ہے۔ چنانچہ جو پانچ وتر ادا کرنا پسند کرے وہ پانچ پڑھ لے اور جو تین وتر پڑھنا پسند کرے وہ تین پڑھ لے اور جو ایک رکعت وتر پڑھنا پسند کرے تو وہ ایک پڑھ لے۔''
٭ سیدہ اُمّ سلمہؓ فرماتی ہیں:« کان رسول اﷲ یوتر بسبع أو بخمس... الخ»26
'' رسول اللہﷺسات یا پانچ وتر پڑھا کرتے تھے۔''
وِتر پڑھنے کا طریقہ
1. تین وتر پڑھنے کے لئے دو نفل پڑھ کر سلام پھیرا جائے اور پھر ایک وتر الگ پڑھ لیا جائے۔ سیدہ عائشہ ؓسے روایت ہے:
«کان یوتر برکعة وکان یتکلم بین الرکعتین والرکعة»27
''آپؐ ایک رکعت وتر پڑھتے جبکہ دو رکعت اور ایک کے درمیان کلام کرتے۔''
مزیدسیدنا ابن عمر کے متعلق ہے کہ
«صلىٰ رکعتین ثم سلم ثم قال: أدخلوا إليّ ناقتي فلانة ثم قام فأوتر برکعة»28
''اُنہوں نے دو رکعتیں پڑھیں پھر سلام پھیر دیا۔پھر کہا کہ فلاں کی اونٹنی کو میرے پاس لے آؤ پھر کھڑے ہوئے اور ایک رکعت وتر ادا کیا۔''
2. پانچ وتر کا طریقہ یہ ہے کہ صرف آخری رکعت میں بیٹھ کر سلام پھیرا جائے۔ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں:« کان رسول اﷲ ﷺ یصلي من اللیل ثلاث عشرة رکعة، یوتر من ذلك بخمس، لا یجلس في شيء إلا في آخرها»29
''رسول اللہ رات کو تیرہ رکعت نماز پڑھا کرتے تھے۔ ان میں سے پانچ وتر ادا کرتے اور ان میں آخری رکعت ہی پر بیٹھتے تھے۔''
3. سات وتر کے لئے ساتویں پر سلام پھیرنا:
سیدہ عائشہؓ سے ہی مروی ہے کہ سیدہ اُمّ سلمہؓ فرماتی ہیں کہ
«کان رسول اﷲ ﷺ یوتر بسبع وبخمس لا یفصل بینهن بتسلیم ولا کلام»30
''نبی ﷺسات یا پانچ وتر پڑھتے ان میں سلام اور کلام کے ساتھ فاصلہ نہ کرتے۔''
4. نو وتر کے لئے آٹھویں رکعت میں تشہد بیٹھا جائے اور نویں رکعت پر سلام پھیرا جائے۔ سیدہ عائشہؓ نبیﷺ کے وتر کے بارے میں فرماتی ہیں: «ویصلي تسع رکعات لا یجلس فیها إلا في الثامنة ... ثم یقوم فیصلي التاسعة»31
''آپﷺ نو رکعت پڑھتے اور آٹھویں رکعت پر تشہد بیٹھتے ...پھر کھڑے ہوکر نویں رکعت پڑھتے اور سلام پھیرتے۔''
قنوتِ وتر: آخری رکعت میں رکوع سے پہلے دعائے قنوت پڑھنا راجح ہے۔
سیدنا اُبی بن کعبؓ سے روایت ہے:
«أن رسول اﷲ کان یوتر فیقنت قبل الرکوع»32
''بے شک رسول اللہﷺ وتر پڑھتے تو رکوع سے پہلے قنوت کرتے تھے۔''
وتر کی دعا
«اَللّٰهُمَّ اهْدِنِيْ فِیْمَنْ هَدَیْتَ وَعَافِنِيْ فِیْمَنْ عَافَیْتَ وَتَوَلَّنِيْ فِیْمَنْ تَوَلَّیْتَ وَبَارِكْ لي فِیْمَا اَعْطَیْتَ وَقِنِيْ شَرَّ مَاقَضَیْتَ فَإنَّكَ تَقْضِيْ وَلَا یُقْضٰی عَلَیْك إنَّه لَا یَذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ وَلَا یَعِزُّ مَنْ عَادَیْتَ تَبَارَکْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَیْتَ»
''اے اللہ! مجھے ہدایت دے ان لوگوں کے ساتھ جنہیں تو نے ہدایت دی،مجھے عافیت دے ان لوگوں کے ساتھ جنہیں تو نے عافیت دی، مجھ کو دوست بنا ان لوگوں کے ساتھ جنہیں تو نے دوست بنایا۔ جو کچھ تو نے مجھے دیا ہے اس میں برکت عطا فرما اور مجھے اس چیز کے شر سے بچا جو تو نے مقدر کردی ہے، اس لئے کہ تو حکم کرتا ہے، تجھ پر کوئی حکم نہیں چلا سکتا ۔جس کو تو دوست رکھے وہ ذلیل نہیں ہوسکتا اور جس سے تو دشمنی رکھے وہ عزت نہیں پاسکتا۔ اے ہمارے ربّ! تو برکت والا ہے، بلند و بالا ہے۔''33
نمازِ جمعہ کی رکعات
نوافل:نمازِ جمعہ سے پہلے دو رکعت نوافل ادا کیے جاتے ہیں،جیسا کہ ارشادِ نبویﷺہے:
«إذا جاء أحدکم یوم الجمعة والإمام یخطب فلیرکع رکعتین»34
''جب تم میں کوئی جمعہ کے دن آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو تو وہ دو رکعتیں ادا کرے''
یہ جمعہ کے کوئی مخصوص نوافل نہیں ہیں بلکہ آپﷺکے دو سرے عام حکم :
«إذا دخل أحدکم في المسجد لا یجلس حتی یصلي رکعتین»35
''جب تم میں سے کوئی مسجد میں آئے تو دو رکعت نماز پڑھے بغیر نہ بیٹھے۔''
کے مطابق یہ تحیۃ المسجد کے نوافل ہیں۔
نوٹ: جمعہ کے فرائض سے پہلے نوافل کی تعداد محدود نہیں ہے۔اِستطاعت کے مطابق جتنے کوئی پڑھ سکے،پڑھ سکتاہے، جس کی دلیل آپ ﷺکا فرمان: «من اغتسل ثم أتىٰ الجمعة فصلى ما قدر له»36 ''جو شخص غسل کرے پھر وہ جمعہ کے لیے آئے تو جتنی اس کے مقدر میں نماز ہو ادا کرے...'' ہے۔ اس سے ثابت ہوا جمعہ سے پہلے نوافل کی مقدار متعین نہیں جتنی توفیق ہو پڑھ سکتا ہے۔
اسی طرح جمعہ کے بعد آپﷺ سے زیادہ سے زیادہ ٦ رکعات نوافل ثابت ہیں۔جس سے متعلق اَحادیث درج ذیل ہیں:
1. ابن عمر کے بارے میں وارد ہے کہ
«إذا کان بمکة فصلى الجمعة تقدم فصلى رکعتین،ثم تقدم فصلى أربعًا، وإذا کان بالمدینة صلى الجمعة، ثم رجع إلىٰ بیته فصلى الرکعتین، ولم یصل في المسجد فقیل له فقال: کان رسول اﷲ ﷺ یفعل ذلك»37
''جب وہ مکہ میں ہوتے تو جمعہ پڑھ کی دو رکعت ادا کرتے۔ پھر چار رکعات ادا کرتے اور جب مدینہ میں ہوتے تو جمعہ پڑھتے اور گھر جاکر دو رکعت پڑھتے،مسجد میں کچھ نہ پڑھتے۔اُن سے پوچھا گیا تو فرمایا : رسول اللہ ﷺاسی طرح کیا کرتے تھے۔''
2. آپﷺنے فرمایا:
«إذا صلى أحدکم الجمعة فلیصل بعدها أربع رکعات»
''جب تم میں سے کوئی نمازِ جمعہ ادا کرے تو اس کے بعد چار رکعات اَدا کرے۔''
دوسری حدیث کے تحت سہیل کہتے ہیں کہ
''اگر جلدی ہو تو دو رکعت مسجد میں اور دو گھر میں پڑھ لے۔''38
3. عبد اللہ بن عمر ؓفرماتے ہیں:
«کان رسول اﷲ کان یصلي بعد الجمعة رکعتین في بیته»39
''بے شک رسول ﷺ جمعہ کے بعد اپنے گھر میں دو رکعت نماز ادا کرتے تھے۔''
نوٹ:مندرجہ بالااحادیث سے جمعہ کے بعد کے نوافل کی درج ذیل صورتیں سامنے آئیں:
1. 6رکعات نوافل مسجد میں ادا کر لیے جائیں۔
2. 4رکعت میں مسجد میں ادا کر لیے جائیں۔
3. دو رکعت مسجد میں اور دو رکعت گھر میں پڑھ لی جائیں۔
4. دو رکعت گھر میں ادا کر لی جائیں اور مسجد میں کچھ نہ پڑھا جائے۔
فرائض:جمعہ کے فرائض دو رکعت ہیں۔آپﷺ نےفرمایا:
«من أدرك من الجمعة رکعة فلیصلي إلیها أخری»40
''جو شخص جمعہ سے ایک رکعت پالے تو اسکے ساتھ دوسری آخری رکعت ملا لے۔''
اس حدیث سے ثابت ہو ا کہ نمازِ جمعہ کے فرائض صرف دو رکعات ہیں۔ جو اس دن ظہر کی نماز کے متبادل ہوجائیں گے اور ظہر کی نماز پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے


حوالہ جات
1صحیح مسلم:٧٢٨
2سنن ترمذی:٤١٥
3صحیح مسلم:٧٢٣
4صحیح بخاری:٧٧١
5صحیح مسلم:٧٢٤
6صحیح مسلم:٧٣٠
7صحیح بخاری:١١٧٢
8سنن ابوداود:١٢٦٩
9صحیح بخاری:١١٨٢
10ايضًا:٧٧٦
11سنن ترمذی:٤٢٩
12سنن ابوداؤد:١٢٧١، سنن ترمذی ٤٣٠
13صحیح مسلم:٤٥٢
14صحیح بخاری:٥٩1
15سنن ترمذی:٥٩٨
16صحیح مسلم:١٢٨٨
17ایضًا:٧٣٠
18ابن حبان:١٥٨٦،قیام اللیل للمروزی،ص٦٤
19صحیح بخاری:١١٨٣
20صحیح بخاری:٧٥٥
21ایضًا:١١٧٢
22ایضًا:٦٩٧
23ایضًا:٦٢٧
24سنن ترمذی:٤٧١
25سنن ابوداود:١٤٢٢
26سنن ابن ماجہ:١١٩٢
27مصنف ابن ابی شیبہ:٦٨٠٦
28صحیح مسلم:٧٣٧
29سنن ابن ماجہ :١١٩٢
30صحیح مسلم:٧٤٦
32سنن ابن ماجہ:١١٨٢
33سنن ترمذی:٤٦٤،بیہقی :٢٠٩٢
34سنن ابوداؤد:988
35صحیح بخاری:١١٦٣
36صحیح مسلم:٨٥٧
37سنن ابوداؤد:١١٣٠
38صحیح مسلم:٨٨١
39سنن نسائی:١٤٢٩
40سنن ابن ماجہ:١١٢١

31رکوع کے بعد قنوتِ وتر سے متعلقہ حدیث جو کہ السنن الکبری للبیہقی:3؍38، 39 اور مستدرک حاکم:3؍172 میں ہے ۔اس کی سند پر محدثین نے کلام کیا ہے۔البتہ قنوتِ نازلہ پر قیاس کرتے ہوئے رکوع کے بعد قنوتِ وتر پڑھنا جائز ہے ۔جیسا کہ قنوتِ وتر میں قنوتِ نازلہ پر قیاس کرتے ہوئے دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا جائز ہے۔

ہ 

ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے کی وعید قران و حدیث سے

  وعن ابن عمر رضی اللہ عنھماقال رسول اللہ ﷺ لا ینظر اللہ الی من جر ثوبہ خیلاء (متفق علیہ) ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ...